google-site-verification: google28e268a48e4bdf50.html Dr. Babar Afzal: March 2020

Thursday, 26 March 2020

کرونا وائرس کی بیماری کا منتقل کندہ یا کیریئر معلوم نہ ہو سکا

کرونا وائرس کی بیماری کا منتقل کندہ یا کیریئر معلوم نہ ہو سکا

مصنف: ڈاکٹربابر افضال چوہدری (ایم ڈی)

جووبائی مرض جانوروں سےانسانوں میں منتقل ہو اسے زبان طب میں حیواناتی وبا یا زونوٹک انفیکشن کہا جاتا ہے۔ جب کبھی کوئی نئی حیواناتی وبا یا زونوٹک انفیکشن پھیلتا ہے تو طبی ماہرین اور سائنسدان یہ پتہ لگانے کے لئے کہ یہ انفیکشن کس نوع یا سپیشیز کے جسم سے انسان کے جسم میں داخل ہوا ہے شب و روز سرتوڑ جد و جہد میں مشغول ہو جاتے ہیں۔اکثر وبا کے جرثومے اپنے ابتدائی جانوروں کے جسم میں سے ایک منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کے اندر داخل ہوتے ہیں جو پھر جرثومے کو انسانوں میں منتقل کرتا ہے۔ منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کا علم صحت عامہ کی حکمت عملی کو طے کرنے اور نافذ کے لئے کلیدی حثیت کا حامل ہے۔ منتقل کندہ کا علم محققین کو بیماری کے ارتقا  اور روگ جنی کی بہتر تفہیم فراہم کرتا ہے۔

وہ وائرس جو موجودہ وبا(جسے عالمی ادارہ صحت نے کروناوائرس کی بیماری سال 2019 یا  COVID-19 کانام دیا ہے) کا سبب ہے، اس وائرس کا تعلق اسی وائرس سے ہے جس کی وجہ سے سارس اور میرس کا مرض ہوا تھا جو انسانوں میں  پھیلنے سے پہلے چمگادڑوں میں گردش کرتا تھا اور کسی ممکنہ منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے)  کے ذریعے انسانون میں داخل ہوا تھا۔ اگرچہ موجودہ وبا کا وائرس اسی طرح کے راستے سے ہی انسانوں کے پاس آیا ہے لیکن اس وقت ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایک منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ موجود ہے۔ نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ کورونا وائرس بغیر کسی منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ کے براہ راست چمگادروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔

2003 میں سارس کا آغاز چمگادڑوں اور دیوار بلیوں کے مابین وائرس پھیلنے کے ساتھ ہوا تھا ، بعد میں 
دیوار بلیوں سے انسانوں تک پہنچ گیا۔ اسی طرح  میں 2012 میرس  کے پھیلنے کے دوران منتقل کندہ یا کیریئر یا 
میان ایندہ ڈرمڈری اونٹ تھے۔
 
گرچہ کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کی وبا جاری ہے، سائنس دان ممکنہ منتقل کندہ یا کیریئر یا            
 انٹرمیڈیٹ میزبانوں کی تلاش کے لئے ماڈل استعمال کررہے ہیں۔ آج (26 مارچ سنہ 2020) تک 416,686 
سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور 18,589 اموات ہوئیں ہیں اور 197 ممالک کی معثیت تباہی کی طرف 
جا رہی ہے۔ وائرس کے جینوم کی پہلی مکمل ترتیب جنوری 2020 میں معلوم ہوئی تھی، جس سے محققین اس 
قابل ہوئے کہ وہ جانوروں میں پہلے سے موجود اور موجودہ وبا کے وائرسوں کا موازنہ کر سکیں۔
 
 جرنل آف ویرولوجی میں شائع ہونے والے رالف بیریک اور فینگ لی کی کے ایک حالیہ مقالے میں 2003 کے
سارس کو کو بطور نمونہ استعمال کیا ہے تاکہ موجودہ کرونا وائرس کی پروٹینوں کی ساخت کو معلوم کیا جاسکے۔ 
ان کو شواہد ملے ہیں کہ سارس 2003 اور کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کے وائرس دونوں کے انسانی خلیوں
 میں دخول کا طور طریقہ ایک جیسا ہے۔ دونوں وائرس کے اوپر ایک جیسی اسپائک پروٹینز پائی گئی ہیں جو انسانی 
جسم میں موجود کچھ خاص خلیوں کے اوپر پائے جانے والے انجیوٹینسین کنورٹنگ انزائم 2  ریسیپٹرس
 (Angiotensin-Converting Enzyme 2 Receptors)کے ساتھ جڑ کر خلیوں میں وائرس کو داخل
 ہونے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ وائرسز خلیے کے اندر جانے کے بعد انسانی ڈی این اے کو استعمال کرتے ہوئے 
اپنی کئی نقول یا کاپیاں تیار کر لیتے ہیں۔ پھر یہ خلیہ پھٹ جاتا ہے اور بہت سارے نئے وائرسز باہر نقل آتے 
ہیں۔
ساخت اور افعال میں مشاہبت سے لگتا ہے کہ کروناوائرس کی بیماری سال 2019 اورسارس آپس میں ملتے جلتے 
وبائیں ہیں۔ محققین نے جانا ہے کہ سور ، فیریٹ ، بلیوں ، اورنگوتین ، بندر ، چمگادڑ کی کم از کم کچھ انواع اور 
انسانوں کے انجیوٹینسین کنورٹنگ انزائم  2  ریسیپٹرس 
((Angiotensin-Converting Enzyme 2 Receptors   کی ساختی مماثلت ہے اس لئے عین ممکن ہے
 کہ موجودہ وبا یا  کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کا وائرس مندرجہ جانوروں میں موجود ہو۔
 
حالیہ مفروضہ یہ ہے کہ موجودہ وباء چمگادڑوں میں شروع ہوئیاور پھر کسی دوسری نوع میں چلی گئی۔ جب کہ
 ووہان میں ابتدائی طور پر بہت سے کیسز ہوانان سی فوڈ مارکیٹ سے منسلک تھے۔ جہاں سانپ اور پرندوں 
سمیت سمندری غذا اور جنگلی حیات کو فروخت کیا گیا تھا - لیکن ہر کرونا کے کیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں 
ہے۔ مارکیٹ میں دستیاب جانوروں کی پیداوار کی وسیع اقسام ، اور بہت سی "مشتبہ انواع" میں 
انجیوٹینسین کنورٹنگ انزائم  2  ریسیپٹرس
((Angiotensin-Converting Enzyme 2 Receptors میں ساختی مماثلتوں کا مطلب ہے کہ سائنسدان
 ابھی بھی کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کی منتقلی کی کڑیوں کے بارے میں پراعتماد نہیں ہیں۔ لیکن اس ت
حقیق سے منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم اس تحقیق کے نتیجے میں 
کرونا وائرس کی ادویات اور ویکسینز کو ٹیسٹ کرنے کے لئے نئے جانوروں کے ماڈل ملنے کا قوی امکان ہے۔ 
 
 صنفین نے تجویز پیش کی ہے کہ موجودہ کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کے ممکنہ منتقل کندہ یا کیریئر یا 
میان ایندہ پینگولن ، سانپ اور کچھوے ہوسکتے ہیں۔ مصنفین کہتے ہیں کہ ان نتائج کی تصدیق کے لئے مزید 
تحقیق کی ضرورت ہے۔
امید کرتے ہیں جلد ہی محققین مکمل طور پر جان لیں گے کے اس وبا کا کیرئیر کونساجانور ہے جس سے ہم اس 
وبا کو دوبارہ پھیلنے سے روک سکیں گے۔ 

Chat with Dr. Babar

 https://dr12-42815.freshchat.com/